03:35 , 23 اکتوبر 2025
Watch Live

سپریم کورٹ میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے فوجی ٹرائل پر سوالات

سپریم کورٹ

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر) – سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے فوجی ٹرائل پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ یہ کیسے طے کیا جاتا ہے کہ کس ملزم کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا اور کس کا نہیں؟ کیا 9 مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جس کے لیے فوجی عدالت میں ٹرائل ہو رہا ہے؟ عدالت نے یہ بھی دریافت کیا کہ ملٹری کورٹ میں مقدمات اور خصوصی عدالتوں میں مقدمات میں کیا فرق ہے؟

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے تیسرے روز دلائل دیے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کر دیا ہے، جو فوجی عدالتوں کے کیس سے متعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 233 کا مقصد صدر کو ایمرجنسی نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کرنے کا اختیار دینا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، لیکن اس دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔ اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا دفاع عدالتوں میں ہو سکتا ہے لیکن صرف ان کی عملداری معطل ہوتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے مترادف ہے۔ دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کا بھی تذکرہ کیا گیا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا تھا، جس سے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس کا کیس فوجی عدالتوں میں نہیں چل سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارا پراسیکیوشن کا نظام مضبوط کیوں نہیں کیا جا رہا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر اچھے تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر ہوں تو عدالتوں سے سزا بھی ہو سکتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیس ملٹری کورٹس کے اختیار سماعت کا ہے، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے کہ کون سا کیس فوجی عدالت میں جائے گا اور کون سا نہیں؟ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لے کر جا رہے ہیں، 9 مئی کے واقعات میں 103 ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کیس چل رہا ہے، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یہ تفریق کیسے کی گئی؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کسی جرم پر کس عدالت میں کیس جائے گا یہ کیسے طے کیا جاتا ہے؟ اور کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا 9 مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم تھا جس کی وجہ سے فوجی عدالت میں ٹرائل ہو رہا ہے؟

عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ پر بھی تبصرہ کیا، جس میں مجرموں کو قید تنہائی میں رکھنے کی تفصیلات شامل تھیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ مجرموں کو جیل میں ناشتے کے بعد لان میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جہاں وہ پانچ بجے تک باہر رہتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ وکالت نامہ پر دستخط کی سہولت نہ ملنے سمیت کوئی بھی شکایت متعلقہ ڈسٹرکٹ سیشن ججز سے کی جا سکتی ہے۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی، اور خواجہ حارث کو دلائل جاری رکھنے کی اجازت دی۔

متعلقہ خبریں
اہم خبریں۔
ضرور دیکھیں
INNOVATION