10:33 , 23 اکتوبر 2025
Watch Live

پاکستان میں کروڑوں گھروں کی کمی پوری کرنے کیلئے بلڈرز کا حکومت سے بڑا مطالبہ

بڑھتی آبادی اور طلب کے پیش نظر ملک میں 12 ملین مکانات کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ تعمیراتی شعبے میں منفی ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں کمی کی بدولت بینکوں سے لیکویڈیٹی کی فراہمی کے باعث، تعمیراتی سرگرمیوں میں دوبارہ تیزی آ سکتی ہے، جس سے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری متوقع ہے۔

تعمیرات کے شعبے کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ہاؤسنگ سیکٹر میں بہتری آتی ہے تو اس سے 70 سے زائد صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا۔

خبروں کے مطابق، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (اے بی اے ڈی) کے چیئرمین حسن بخششی نے حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم نے ان کی تجاویز کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی کہا کہ مارکیٹ میں قیاس آرائیوں کی بجائے اصل تعمیراتی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ وہ اس شعبے کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں، خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے۔

حسن بخششی نے اس بات کا ذکر کیا کہ سیمنٹ انڈسٹری کی صلاحیت صرف 30 فیصد تک استعمال ہو رہی ہے، تاہم مقامی قیمتیں مشرق وسطیٰ کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤسنگ کی ترقی کو بحال کرنے کے لیے طویل المدت سبسڈائزڈ فنانسنگ کی ضرورت ہے، جیسا کہ سابقہ حکومت کے دوران 31,000 سے زائد مکانات کو سبسڈائزڈ فکسڈ ریٹس پر مالی امداد دی گئی تھی۔

دوسری طرف، بینکوں نے احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کی مدد کے بغیر طویل مدتی بڑے پیمانے پر فنانسنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ بلڈرز کا مطالبہ ہے کہ ریاست سود کی شرح میں اضافے کے اثرات کو برداشت کرے تاکہ ہاؤسنگ قرضوں کو قابل عمل بنایا جا سکے۔ موجودہ وقت میں مضبوط مورگیج فنانسنگ سسٹم کی عدم موجودگی کی وجہ سے زیادہ تر خریدار قرضہ حاصل نہیں کر پاتے، جس کے نتیجے میں کرایوں کی قیمتوں کے مطابق قرضے نہیں مل پاتے۔

بینکوں نے خبردار کیا کہ بڑے پیمانے پر طویل مدتی فنانسنگ میں ڈیفالٹ کے خطرات زیادہ ہیں، اس لیے یہ حکومت کے بانڈز میں سرمایہ کاری کی نسبت کم فائدہ مند آپشن سمجھا جاتا ہے، جہاں کم خطرے کے باوجود ریکارڈ منافع مل رہا ہے۔

 

متعلقہ خبریں
اہم خبریں۔
ضرور دیکھیں
INNOVATION