پاکستان کی اقتصادی ترقی میں حائل مشکلات

چوہدری محمد سرور
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی، تجارت اور صنعت میں روز افزوں اضافے کی وجہ ان کی کاروبار دوست پالیسیاں، شفاف قواعد و ضوابط، اور قابل اعتماد بنیادی کاروباری ڈھانچے ہیں۔ یہ سہولتیں ہی کمپنیوں کومستقبل کی جامع منصوبہ بندی کرنے، مزید سرمایہ کاری کرنے، روزگار پیدا کرنے، برآمدات بڑھانے کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
ترقی یافتہ معیشتوں کے چند یکساں طے شدہ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں جو معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔مثلا یہ معیشتیں مستحکم ریگولیٹری نظام فراہم کرتی ہیں تاکہ کاروباری فرموں کو اعتماد ہو کہ الیکشن یا حکومت کی تبدیلی کے ساتھ قواعد میں اچانک کوئ تبدیلی نہیں آئے گی۔ اصولی طور پر، کارپوریٹ (اور بالواسطہ /سیلز ٹیکس/وغیرہ)—کی شرح اس سطح پر رکھی جاتی ہیں جو منافع کی اجازت دیتی ہیں، لیکن اس حد تک کہ اس سے کاروبار متاثر نہ ہوں۔ مراعات اور استثنیٰ احتیاط سے استعمال کیے جاتے ہیں، اور ہر کسی پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں۔
یہ ممالک دفتری، انتظامی اور افسر شاہی کے الجھاؤ میں ہر ممکن کمی لاتے ہیں تاکہ کاروباری معاملات اور منظوریوں کے لیے کم سے کم محکموں کی دخل اندازی ہو۔کاروباری معاملات کے لیے ڈیجیٹل اور ہموار طریقہ کار فراہم کیے جاتے ہیں، بدعنوانی پر کنڑول رکھا جاتا ہے اور پرمٹ، تجارتی لائسنس، کسٹمز وغیرہ کی جلد از جلد منظوری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ مال کی پیداوار سے لے کر اس کی مقامی مارکیٹ میں پہنچ اور سمندر پار رسائ تک ساری سپلائ چین کو مستحکم اور مربوط بنایا جاتا ہے اور کسی بھی غیر متوقع نقصان سے بچانے کے لیے انشورنس کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے
اس کے علاوہ توانائی کی لاگتیں اکثر و بیشتر مستحکم ہوتی ہیں، جہاں ضرورت ہو سبسڈی دی جاتی ہے، یا پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے ان کے پاس توانائی کے دیگر قابل تجدید ذرائع ہوتے ہیں۔
یہ وہ عمومی پالیسیاں ہیں جو تجارت اور صنعت کو ترقی دینے، برآمدات کو مسابقتی بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔
اس کے برعکس، پاکستان میں یہ واضع حقیقت ہے کہ غیر موثر پالیسیاں، سیاسی عدم استحکام اور اس کے ساتھ توانائی کے نرخوں کا بوجھ اور پیچیدہ ٹیکس نظام ،ہر قسم کے کاروبار، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں
زیادہ تر سرکاری اور نجی کمپنیوں کے لیے پاکستان کی معیاری کارپوریٹ ٹیکس کی شرح ۲۹ فیصد کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئ دوسرے ٹیکس، سپر ٹیکس اور لیویز موجود ہیں۔ یہ کاروباری اخراجات اور پیداواری لاگت میں مذید اضافہ کرتے ہیں۔
عائد کردہ ٹیکس غیر متوقع بھی ہوتے ہیں اور ان کے نظام اور شرح میں اچانک تبدیلیاں بھی کر دی جاتی ہیں۔ ٹیکس سے متعلقہ محکموں سے نمٹنا تمام کاروباری اداروں کے لیے انتہائی مشکل امر ہے۔ گورنر پنجاب کی حیثیت سے میں نے صوبے بھر سے تاجروں کی ہزاروں ہی شکایات کا ازالہ کیا ہے۔ بعض اوقات تو کاروباری حضرات بیوروکریسی اور دیگر محکموں سے تنگ آکر اپنا کاروبار ہی ترک کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار سے متعلقہ بہت سے محکموں کے پاس یکساں یا ملتے جلتے اختیارات اور دائرہ کار موجود ہیں اور وہ تمام اپنے اختیارات اور احکام پر عمل کروانا چاہتے ہیں جو کاروباری حضرات کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔
ملکی سرمایہ کاری اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری دونوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ جب بھی حکومت بدلتی ہے تو پہلے سے موجود پالیسی بدل دی جاتی ہے۔ قوانین، ضوابط، ٹیرف، سبسڈیز، اور توانائی/بجلی کے شعبے کے معاہدوں پر اکثر نئی حکومت دوبارہ ڈیل کرتی ہے یا اسے یکسر ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تسلسل کے اس فقدان کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار آنے والے پانچ یا دس سال میں اپنی آمدنی ، منافع یا بچت کا درست تخمینہ ہی نہیں لگا پاتے جو مینوفیکچرنگ پلانٹس، بڑی صنعتی سہولیات، انفراسٹرکچر وغیرہ کے لیے درکار ہو گا۔ اس طرح ان کے لیے کسی بھی سرمایہ کاری میں رسک بہت زیادہ ہے، اس لیے بہت سے لوگ زیادہ مستحکم حالات والے ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان کا صنعتی شعبہ بھارت، چین، حتیٰ کہ امریکہ میں توانائی کے نرخ سے تقریباً دوگنا بجلی کے نرخ ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں سنہ ۲.۲۴ میں اوسط شرح تقریباً ۱۳.۵ امریکی سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ تھی۔اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح .۶.۳ فی سینٹ، چین میں ۷.۷ سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ تھی۔
اس کی بڑی وجہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو کی جانے والی وہ ہوشربا رقوم کی آدائیگیاں ہیں جو مسلسل کی جا رہی ہیں اس بات سے قطع نظر کہ وہ پلانٹ بجلی پیدا کر بھی رہے ہیں یا بند پڑے ہیں۔ان عجیب و غریب معاہدوں کی دنیا میں کوئ نظیر نہیں ملتی جن کے تحت حکومت پاکستان بند کارخانوں کو اربوں روپے ماہوار کی ادآئیگی کر رہی ہے۔
آئی پی پیز کے ساتھ بہت سے معاہدے غیر ملکی کرنسیوں سے بھی منسلک ہیں۔ ملکی خزانے کے ساتھ یہ ظلم اور بےرحمی سے کیے گئے معاہدے اب بھی جاری ہیں اور ان بھاری ادائیگیوں کا بوجھ پاکستانی بے بس صارفین کو ڈھٹائ سے منتقل کر دیا جاتا ہے جو بجلی کے بلوں کے بوجھ سے بےحال ہو چکے ہیں۔
مالی سال 2023-24 میں صرف۲۹ فیصد اصل توانائی کی قیمت کے عوض ۷۱ فیصد کی ادائیگی کی گئ۔ مالی سال 2024-25 میں پاکستان نے ان آئ پی پیز کو صرف کپیسٹی پیمنٹ کے لیے دو ہزار اکانوے ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ ان ادائیگیوں میں مذید اضافہ متوقع ہے اور یہ اگلے مالی سال میں ۲.۱ ٹریلین بڑھ کر ~ ۲.۸ ٹریلین روپے ہو جائیں گی۔ یہ کوئ معمولی بات نہیں ہے۔ مہنگائ سے تنگ، پاکستانی عوام پر-جو اپنی حکومتوں کے ببدترین فیصلوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں- یہ بوجھ دل دہلا دینے والا ہے۔
بجلی کے یہ اونچے نرخ ہی پاکستان میں تیار کردہ سامان کی لاگت بھارت، بنگلہ دیش، چین، ملائیشیا وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہونے کی اصل وجہ ہے۔
پاکستان کو پانی کے حوالے سے’انتہائ زیادہ، انتہائ کم’ کی صورت حال کا سامنا ہے۔ مون سون میں جہاں پاکستان شدید سیلاب کا سامنا کرتا ہےاور وہ زبردست سیلاب وسیع علاقوں میاں شدید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ جان و مال اور زمین کو تباہ کر دیتے ہیں اور اس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، لیکن مون سون کے بعد خشک سالی ہو جاتی ہے اور زراعت اور آبپاشی کے لیے پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
بار بار آنے والی آفات اور ان کے شدید اثرات بیرونی اور مقامی سرمایہ کاری کے لیے بھی رکاوٹ بنتی ہیں اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ پاکستان کو سیلاب پر قابو پانے کے لیے جہاں اپنے علاقوں اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آفات سے ہونے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے وہاں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ وہاں ایسے ذخائر بنائے جائیں جو اضافی پانی کو ذخیرہ کر سکیں اور اسے زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کے لیے زیر زمین آبی ذخائر تک پہنچا سکیں۔
جہاں تک ممکن ہو، وہاں دریاؤں پر رن آف ریور ڈیم بنائے جائیں، جن سے پن بجلی پیدا کی جا سکے۔ بھارت کئی دہائیوں سے یہ ڈیم بنا رہا ہے اور وہ ایسے سینکڑوں ڈیموں سے بجلی پیدا کر رہا ہے جو اس کی صنعت اور زراعت کے لیے معاون ہیں۔
حکومت پاکستان کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود، پاکستان میں اب بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ناکافی ہے اور کوئ بڑی، طویل مدتی سرمایہ کاری نہیں ہو پا رہی۔
سیاسی عدم استحکام، امن و امان کے خدشات، غلط ریگولیٹری پالیسیاں، بدعنوانی، سب سرمایہ کاری کے رسک میں اضافہ کرتے ہیں۔ پڑوسی ممالک – بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام وغیرہ میں برآمد کنندگان کے لیے اکثر بجلی کی قیمت کم اور پالیسیاں ممستحکم ہیں جو سرمایہ کار پر بوجھ گھٹاتی ہیں۔
اگر پاکستان کو ترقی کے راستے پر چلنا ہے، عالمی سطح پر مقابلہ کرنا ہے، اور مینوفیکچرنگ، تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہے، تو اسے مقررہ صلاحیت کی ادائیگیوں کو ختم کر کے آئی پی پیز کے معاہدوں کو درست کرنا ہو گا۔ اسے قابل تجدید ذرائع (شمسی، ہوا) اور سستی پن بجلی میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
حکومت ٹیکس کے نظام کو سادہ اور آسان بنائے، کارپوریٹ ٹیکس کو گھٹائے، مختلف درخواستوں کی منظوریوں اور رجسٹریشن کے طریقہ کار کو ڈیجیٹائز کریں اور مالیاتی قواعد و ضوابط میں مستقل تبدیلیوں سے اجتناب کرے۔ پالیسی کی تشکیل میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ تمام کاروبار بہتر انداز میں، منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کر سکیں۔
پاکستان کو بھی ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں لیکن ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ پاکستان کو 1 جنوری 2014 میں ایک زبردست سفارتی کاوش کے بعد یورپین یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا گیا ۔ پاکستان کے سفارتی وفد اور اس سفارتی مہم کی قیادت اس وقت بطور گورنر پنجاب میں نے کی۔
برطانیہ کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے میں نے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں اپنے تمام رابطوں کا بھرپور استعمال کیا۔ ایک طویل کاوش سے یورپین یونین کے تمام اراکین کو پاکستان کی درخواست کی حمایت کے لیے کیا آمادہ کیا اور پاکستان اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی۔
میں نے وزارت تجارت اور وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر انتھک کام کیا تاکہ پاکستان کی جانب سے یورپین یونین کے ستائس مطلوبہ کنونشنز کی تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ میں نے پاکستان کو ایک ایسےملک کے طور پر متعارف کروایا جو یورپین ممالک کے باہمی اشتراک سے کام کرنے کے لیے تیار بھی تھا اور اس کے لیے ضروری اصلاحات بھی نافذ کر رہا تھا۔ میں نے اپنی بھرپور کوشش سے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے پاکستان کا مقدمہ لڑا اور اس میں ہمیں کامیانی حاصل کی۔ یہ پاکستان کے لیےایک بہت بڑی جیت تھی۔
پاکستان نے جی ایس پی پلس سٹیٹس سے بلاشبہ کافی فائدہ اٹھایا ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس سے پہلے، سنہ ۲۰۱۳ میں پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات تقریباً ۴.۵ بلین یورو تھیں۔سنہ ۲.۲۲ تک یہ بڑھ کر 7.5 بلین یورو تک پہنچ گئیں جو تقریباً 70 فیصد کے اضافے کی نمائندگی کرتا ہےاور اس میں خصوصا جرمنی، سپین، اٹلی، نیدرلینڈز اور فرانس سمیت بڑی مارکیٹوں کو برآمدات شامل ہیں۔
پاکستان کے اس سٹیٹس کے حصول نے لاکھوں ملازمتیں پیدا کی ہیں، خاص طور پر گارمنٹس فیکٹریوں میں خواتین کے لیے کمانے کے مواقع پیدا کیے۔ بہت سے درمیانے درجے کے مینوفیکچررز کو پیداوار بڑھانے، مشینری کو اپ گریڈ کرنے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس موقع سے اصل فائدہ حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں مینوفیکچرنگ کی لاگت کا زیادہ ہوناہے۔
اگر پاکستان سستی توانائی کے ذریعے پیداواری لاگت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ صرف یورپی یونین میں ہی اپنی مارکیٹ میں بے پناہ اضافہ کر سکتا ہے۔
پاکستان میں معاشی ترقی ممکن ہے لیکن اس کے لیے دیرپا اور پائیدار اصلاحات، سیاسی عزم اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی
اسلام آباد پولیس کے افسر ایس پی عدیل اکبر مبینہ طور پر اپنی گاڑی کے اندر خود کو گولی مار…3 گھنٹے پہلےوفاق اور خیبرپختونخوا کے تنازع میں بلوچستان کی انٹری، وزیراعلیٰ نے بلٹ پروف گاڑیاں مانگ لیں
وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا کے درمیان پولیس کی بلٹ پروف گاڑیوں کے تنازع میں بلوچستان حکومت بھی کود پڑی۔ وزیراعلیٰ…2 دن پہلےکراچی رن وے تین گھنٹے روزانہ بند رکھنے کا فیصلہ
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اعلان کیا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کا ایک رن وے 5 نومبر سے 24…2 دن پہلےطلال چودھری کی کے پی حکومت پر تنقید، بلٹ پروف گاڑیوں کی واپسی پر شدید ردعمل
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کو شدید تنقید…2 دن پہلے
مغربی کنارے بل کی اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظوری کی مذمت
پاکستان، سعودی عرب، ترکی، او آئی سی اور عرب لیگ سمیت 17 ممالک اور تنظیموں نے مغربی کنارے پر قبضے…3 گھنٹے پہلےاسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی
اسلام آباد پولیس کے افسر ایس پی عدیل اکبر مبینہ طور پر اپنی گاڑی کے اندر خود کو گولی مار…3 گھنٹے پہلےپاکستان کی اقتصادی ترقی میں حائل مشکلات
چوہدری محمد سرور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی، تجارت اور صنعت میں روز افزوں اضافے کی وجہ ان…15 گھنٹے پہلےمریم نواز کا ہنرمند نوجوانوں کے لیے فری پرواز کارڈ منصوبہ
پنجاب حکومت نے صنعتی ترقی اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے اہم قدم اٹھایا ہے۔ صوبائی حکومت نے ہنرمند…1 دن پہلے
ایشین یوتھ گیمز: پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی
پاکستان نے بحرین میں جاری تیسرے ایشین یوتھ گیمز مینز…2 گھنٹے agoمغربی کنارے بل کی اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظوری کی مذمت
پاکستان، سعودی عرب، ترکی، او آئی سی اور عرب لیگ…3 گھنٹے agoاسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی
اسلام آباد پولیس کے افسر ایس پی عدیل اکبر مبینہ…3 گھنٹے agoبھارت میں مسلم بستیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا سلسلہ جاری
مودی کے بھارت میں ریاستی سطح پر انتہاپسند پالیسیوں کا…4 گھنٹے ago