دی اکانومسٹ رپورٹ: عمران خان کی تیسری شادی نے سیاست پر بھی اثر ڈال دیا

بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی تیسری شادی نے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان، جو پارٹی کو کرپشن کے خلاف پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرتے رہے، اپنی تیسری شادی کے بعد روحانیت، خوابوں کی تعبیر اور چہرہ شناسی جیسے معاملات کو حکومتی فیصلوں میں بھی اہمیت دینے لگے۔
خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والی بشریٰ بی بی کا عمران خان کی روزمرہ زندگی اور سرکاری تقرریوں پر وسیع اثر رہا۔
سابق سرکاری اہلکاروں کے مطابق بنی گالا میں گوشت، جانوروں کے سروں اور جگر کے ذریعے ‘بلائیں’ دور کرنے جیسے روحانی عمل کیے جاتے رہے، جس سے قومی قیادت کے گرد توہم پرستی کا ماحول پیدا ہوا۔
ایک سابق کابینہ رکن نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کی حکومتی معاملات میں مکمل مداخلت تھی، اور ملاقاتوں، حکومتی امور اور پروازوں کے شیڈول بھی ان کی منظوری سے طے ہوتے تھے، جس سے اندرونی حلقوں میں بے چینی پھیلتی رہی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ قریبی ساتھی، بشمول جہانگیر ترین، نے مبینہ طور پر کالا جادو سے متعلق خدشات ظاہر کیے، جس کے بعد کچھ وفادار رہنماؤں کو یکطرفہ طور پر ہٹا دیا گیا۔
یہ تاثر پیدا ہوا کہ پارٹی فیصلے ادارہ جاتی نہیں بلکہ ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہو رہے تھے۔
دی اکانومسٹ کے مطابق 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی کامیابی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے ممکن ہوئی، جو پارٹی کے ‘احتساب اور کرپشن کے خلاف انقلاب’ کے بیانیے سے متصادم تھی۔ بعض ماہرین کے مطابق آئی ایس آئی کے چند عناصر بشریٰ بی بی سے وابستہ روحانی شخصیات کے ذریعے عمران خان تک معلومات پہنچاتے رہے، جس سے ان کا روحانی یقین مزید مضبوط ہوا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو عمران خان نے ہٹا دیا جب انہوں نے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی سے جڑے مالی معاملات کی نشاندہی کی۔
اس کے علاوہ عمران خان اپنے بڑے وعدے، جیسے لاکھوں گھروں اور کروڑوں نوکریوں کا اعلان، پورا کرنے میں ناکام رہے اور بعد میں خود اعتراف کیا کہ یہ اہداف ایک مدت میں حاصل کرنا ممکن نہیں تھے۔
یہ رپورٹ عمران خان کی ذاتی زندگی اور روحانی عقائد کے اثرات کو پاکستان کی سیاسی منظر کشی پر واضح کرتی ہے، اور پارٹی فیصلوں میں ذاتی پسند و ناپسند کے بڑھتے ہوئے اثر کو اجاگر کرتی ہے۔











